افغان فوج جلد امریکہ کی اہم مدد اور حمایت سے محروم ہونے والی ہے، ایسے میں طالبان رہنما افغانسان پر مکمل طور پر قبضہ کرنے اور ملک میں اسلامی ریاست کا اپنا ورژن دوبارہ قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات بے یقینی کا شکار ہیں جبکہ افغانستان میں تشدد جاری ہے۔
مزید پڑھیں
عسکریت پسندوں نے امریکی فوج کے مئی میں شروع ہونے والے حتمی انخلا سے اب تک افغانستان میں 30 اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں طالبان نے افغان فوج پر حملے کیے ہیں اور ملک کے فوجی حکام کو کئی دیہی اضلاع سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔
تشدد کی کارروائیوں سے متاثرہ غزنی صوبے میں عسکریت پسند رہنما ملا مصباح نے اے ایف پی کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ ‘متکبر امریکیوں کو لگا کہ وہ طالبان کو دنیا سے مٹا سکتے ہیں، لیکن طالبان نے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو شکست دے دی اور خدا نے چاہا تو اب ان کے جانے کے بعد افغانستان میں ایک اسلامی نظام رائج ہوگا۔’
حالیہ ہفتوں میں طالبان نے غزنی کے دو اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔
غزنی ہائی وے کے قریب ایک اہم صوبہ ہے جو کہ دارالحکومت کو جنوب میں واقع طالبان کے سابق گڑھ قندھار سے جوڑتا ہے۔
افغان طالبان اب تقریباً ہر صوبے میں موجود ہیں اور کئی بڑے شہروں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی عسکریت پسندوں نے سنہ 1990 کی دہائی کے وسط میں اپنائی تھی جب انہوں نے امریکہ کے 11 ستمر 2001 کو ہونے والے حملوں کے بعد تقریباً پورے افغانستان پر قبضہ کیا تھا۔

افغان طالبان اب تقریباً ہر صوبے میں موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)