پاکستان میں گرفتار انڈیا کے مبینہ جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل کی فراہمی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے انڈیا کو ایک اور موقع دے دیا گیا۔
انڈیا کو پندرہ جون تک کلبھوشن کو وکیل فراہم کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا کہ انڈیا خود بتائے عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کیسے ممکن ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انڈین ہائی کمیشن کے وکیل نے ایک متفرق درخواست دائر کی جس سے لگتا ہے کہ انڈیا کو اس عدالت کی کارروائی سے متعلق کوئی غلط فہمی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا انڈیا عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں لگ تو کچھ ایسا ہی رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انڈیا نے پاکستان کی کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کرنے کی تجویز کو مسترد کیا۔ ’انڈیا کا کا موقف ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں پیش ہونا ان کی خودمختاری کے خلاف ہے۔‘
اٹارنی جنرل کے مطابق انڈیا نے چار دیگر قیدیوں کے کیس میں اسی عدالت سے رجوع کیا۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کیس میں انڈین کو خودمختاری کا اعتراض ہے تو دیگر قیدیوں کے کیس میں کیوں نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انڈیا اپنا نمائندہ مقرر کر کے اس عدالت کو یہ تو بتا دے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت کہا کہ انڈیا کی خودمختاری پر قطعاً کوئی شک نہیں۔ انڈیا اتنی معاونت کر دے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کیسے کرانا ہے۔اس کیس میں انڈیا کی خودمختاری کا تو سوال ہی نہیں۔

کلبھوشن یادیو کو 2016 میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا (فوٹو: اے پی پی)