کورونا وائرس کی وبا نے جب گذشتہ سال سر اٹھایا اور آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا تو بہت سی کمپنیوں نے اپنے عملے کو ورک فرام ہوم یعنی گھروں سے کام کرنے کا کہہ دیا تاکہ وہ محفوظ ماحول میں رہ کر اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
مزید پڑھیں
ورک فرام ہوم شروع میں تو کئی افراد کے لیے کافی مشکل تھا لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اس کے عادی ہوتے گئے۔ اگرچہ بہت سے ممالک میں اب عملے کی کم تعداد کے ساتھ دفاتر کھل چکے ہیں لیکن کئی کمپنیاں اب بھی ورک فرام ہوم کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
مشہور امریکی کمپنی ایپل نے بھی گذشتہ سال سے اپنے عملے کو ورک فرام ہوم کی سہولت دے رکھی تھی اور اب جب اس نے رواں سال ستمبر سے ملازمین کو دفتر سے کام کرنے کا کہا ہے تو ملازمین کی جانب سے مزاحمت دیکھنے میں آرہی ہے۔

ابتدائی مشکلات کے بعد لوگ ورک فرام ہوم کے عادی ہوتے گئے (فوٹو: اے ایف پی)
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے ٹیکنالوجی ویب سائٹ دی ورج کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’کم از کم 80 افراد نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں ایک سال سے زائد عرصے کے لیے گھر سے کام کرنے والے ملازمین کو مزید نرمی دینے کا کہا گیا ہے۔‘
نیوز ویب سائٹ پر شائع کیے گئے خط کے مطابق ’ہم اپنے ساتھیوں میں پائی جانے والی تشویش کے حوالے سے بات کرنا چاہیں گے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں یا تو اپنے خاندان، اپنی خیریت اور بہترین انداز میں کام کرنے کا انتخاب کرنا ہے یا پھر ایپل کا حصہ بنے رہنا ہے۔‘
گوگل، فیس بک اور مائیکروسوفٹ نے بھی اپنے عملے کو ورک فرام ہوم کی سہولت دے رکھی ہے جبکہ کچھ فرمز جیسے کہ ٹوئٹر نے اپنے عملے کو یہ کہہ دیا ہے کہ وہ غیر معینہ مدت تک گھروں سے کام کر سکتے ہیں۔

عملے کی جانب سے خط میں کہا گیا ہے کہ ’ورک فرام ہوم نے وبا سے متاثر ہونے کے خطرے کو کم کیا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)