خودکار طریقے سے چلنے والی ’مے فلاور 400‘ جلد سمندر میں اپنا سفر شروع کرے گی۔
خبر رساں ادارے ایف پی کے مطابق اس کشتی پر سولر پینلز لگے ہوں گے، اس کا وزن 50 فٹ اور نو ٹن ہے اور یہ اپنے سفر کے دوران سمندر میں آلودگی، پانی میں پلاسٹک اور سمندری جانوروں کا جائزہ لے گی۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ سمندر کے اندر کی 80 فیصد دنیا ایسی ہے جس کا اب تک کسی کو پتہ نہیں چل سکا ہے۔
امریکی کمپنی آئی بی ایم میں کام کرنے والی ایک ماہر روزی لیکرش نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’لوگوں کے بغیر چلنے والی کشتی کی مدد سے سائنسدانوں کو جائزہ لینے کے لیے مزید جگہوں کا پتہ چل سکے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انساںوں سے خالی کشتی کسی بھی ماحول میں داخل ہو سکتی ہے۔
مے فلاور پراجیکٹ کے ماسٹر مائنڈ بریٹ فانوف کا کہنا تھا کہ اس کشتی کے پراجیکٹ میں کئی افراد شامل ہیں جن کا تعلق انڈیا، سوئٹزرلینڈ اور امریکہ سمیت دیگر ممالک سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عالمی کوششوں کے بغیر اس پراجیکٹ کی لاگت پرو میئر کے لگائے 10 لاکھ ڈالر سے 10 گنا زیادہ ہوتی۔

سولر پینلز لگا ہوا 50 فٹ اور نو ٹن کا یہ جہاز مکمل طور پر خودکار ہے۔ فوٹو: اے ایف پی