خیبرپختونخوا حکومت نے کم عمری میں شادی کی روک تھام کیلئے قانون سازی کا فیصلہ کرتے ہوئے طے کیا ہے کہ مختلف اسلامی ممالک میں رائج قوانین کا جائزہ لینے کے بعد بل کو جلد صوبائی کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کردیا جائے گا۔
مجوزہ بل کے مطابق شادی کیلئے کم سے کم 18 سال عمر کی حد مقرر کی جائے گی جبکہ ساتھ میں اس تجویز پر بھی غور ہوگا کہ اگر 18 سال سے پہلے شادی ناگزیر ہو تو اس معاملے کو عدالت کی اجازت سے مشروط کیا جائے۔
صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کی صدارت میں چائلڈ میرج بل پر بنائے گئے ورکنگ گروپ اجلاس میں پارلیمنٹری ویمن کاکس کی چیئرپرسن ڈاکٹر سمیرا شمس اور ایم پی اے و پارلیمانی سیکریٹری برائے اعلی تعلیم عائشہ بانو سمیت دیگر ایم پی ایز شریک تھے۔
مزید جانیے: کم عمری کی شادی سے متعلق قانون سازی پراسلامی نظریاتی کونسل کو تحفظات
صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں چائلڈ میرج بل میں عمر کا معاملہ ابھی تک تاخیر کا شکار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کے 15 اسلامی ممالک میں یہ قانون کم سے کم 18 سال عمر کے ساتھ نافذالعمل ہے۔
شوکت یوسفزئی نے مزید کہا کہ کم عمری میں شادی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی لحاظ سے بھی صحیح نہیں اور اس سے چھوٹی بچیوں کی صحت پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں جبکہ کچھ کیسز میں زچگی کے دوران موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔
دوسری جانب جمعیت علماء اسلام نے اس حوالے سے ہونے والی قانون سازی پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر مفتی فضل غفور نے سماء ڈیجیٹل سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ یہ قانون سازی نیک نیتی سے نہیں ہورہی اور اس کے پیچھے مغرب کی لبرل سوچ کار فرما ہے۔
مفتی فضل غفور کا کہنا تھا کہ اسلام میں لڑکا ہو یا لڑکی بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے بعد اس کی شادی جائز ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اسمبلی کے اندر اور باہر اس قسم کی قانون سازی کی بھرپور مخالفت کریں گے۔
یاد رہے کہ صوبہ سندھ اور پنجاب میں اس حوالے سے پہلے ہی قانون سازی کی جاچکی ہے۔ سندھ میں نئے قانون کے تحت شادی کیلئے کم سے کم عمر 18 سال ہے جبکہ کم عمری کی شادی کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کی رو سے کم عمری کی شادی کرانے والے والدین اور نکاح خواں کو 3 سال تک قید ہوسکتی ہے۔
تفصیلات جانیں: کم عمری کی شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور
پنجاب میں بھی کم عمری کی شادی کے حوالے سے 2015ء میں ایک ترمیمی بل منظور کیا جاچکا ہے جس کے تحت اب کم عمری کی شادی کرنے والے نکاح خواں اور سرپرست کو 50، 50 ہزار روپے جرمانہ اور 6، 6 ماہ تک قید یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی تاہم پنجاب میں لڑکی کیلئے کم از کم 16 سال جبکہ لڑکے کیلئے 18 سال رکھی گئی ہے۔
پاکستان میں 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور پسماندہ علاقوں میں والدین روزمرہ کے اخراجات سے مجبور ہوکر بھی بچیوں کی کم عمری ہی میں شادی کردیتے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد رسم و رواج اور آگاہی نہ ہونے کے باعث بھی اپنی بچیوں کی کم عمری میں ہی شادیاں کردیتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 21 فیصد لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کردی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ایسی بچیوں کو جان کے خطرے کا سامنا کرنے کے علاوہ بہت سے طبی مسائل بھی جھیلنے پڑ جاتے ہیں۔
متعلقہ خبریں