’ایک دودھ فروش کا بیٹا یونیورسٹی کا ریکٹر بن گیا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا‘ آپ نے کالم میں میرے بارے میں یہی لکھا ہے۔
ملک صاحب نے سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ کو بلانے کا مقصد کچھ ادھوری معلومات کو مکمل کرنا ہے۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ دودھ فروش لڑکے اور اس کے والد کے پاس جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا۔ جسے وہ دونوں باری باری استعمال کرتے تھے۔ آپ کے علم میں یہ بھی نہیں ہوگا کہ دودھ فروش لڑکا جب سائیکل پر دودھ فروخت کرنے نکلتا تو جوتے سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لٹکا دیتا تھا۔ وہ گاہکوں کے گھروں میں دودھ پہنچاتے ہوئے بھی جوتے نہیں پہنتا تھا۔ صرف اس لیے کہ اس کے سول زیادہ گھس نہ جائیں۔
مزید پڑھیں
اسلام آباد میں مقیم تجزیہ نگار و مصنف آصف محمود کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ان کے دور طالب علمی کے ریکٹر ملک معراج خالد کے ساتھ ملاقات کا منظر اور احوال ابھی تک یاد ہے۔
درج بالا مکالمے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ اسلامی یونیورسٹی میں دوران تعلیم فیسوں میں اضافے پر انہوں نے مقامی اخبار میں چھپنے والے اپنے کالم میں ریکٹر پر تنقید کی۔
جس پر ان کی طلبی ہوئی۔ اس گستاخی پر یونیورسٹی سے بے دخلی کے خوف کے ساتھ وہ ریکٹر آفس میں داخل ہوئے۔
ان کے بقول یونیورسٹی کی انتظامیہ کے سربراہ نے اس گستاخی کا نہ صرف برا نہیں منایا بلکہ اپنی ذاتی زندگی کے کچھ چھپے ہوئے گوشے بھی ان کے سامنے کھول کر رکھ دیے۔ تھوڑی دیر بعد جب میں ریکٹر آفس سے نکلا تو فیسوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن کو واپس لینے کا حکم جاری ہوچکا تھا۔
ملک معراج خالد نے دودھ فروشی سے وزارت عظمیٰ کی کرسی تک کا سفر کیسے طے کیا بظاہر افسانہ محسوس ہونے والا یہ تذکرہ ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کی روشن اور جیتی جاگتی حقیقت ہے۔
پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقے کے ساتھ لاہور کا نواحی علاقہ برکی واقع ہے۔ ایک غریب کسان خاندان میں 1914 میں ملک معراج خالد کا جنم ہوا۔ ان کے بقول گھر میں غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر والوں کو اور مویشیوں کو ایک ہی کمرے میں رہنا پڑتا تھا۔
لڑکپن میں والد کے ساتھ دودھ بیچنے کا کام کیا۔ علی الصبح سائیکل پر دودھ لاد کر شہر کا رخ کرتے دودھ پہنچا کر مسجد میں جا کر کپڑے بدلتے اور سکول کی راہ لیتے۔ اس مشقت اور مستقل مزاجی نے قانون کی ڈگری دلا دی۔
غربت کی تلخیوں نے طبقاتی تقسیم کا سماجی اور سیاسی شعور مزید گہرا کردیا۔ قیام پاکستان سے قبل تعلیم مکمل کرکے وکالت کا شعبہ اپنا چکے تھے۔

ملک معراج خالد نے 1996 میں بطور نگران وزیراعظم حلف اٹھایا۔ (فوٹو: فلکر)
جب مالی حالات بدلے تو کم وسیلہ نوجوانوں کی تعلیمی اور سماجی بحالی و بیداری کے لیے ’تنظیم الاخوان‘ کے نام سے تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی زندگی میں ہی یہ چھوٹا سا ادارہ عظیم الشان تعلیمی کمپلیکس میں ڈھل گیا۔
ملک معراج خالد کی سماجی وتعلیمی خدمات اور غریب پروری نے سیاست میں عوامی نمائندگی کا راستہ کھول دیا۔ 1964 میں آزاد حیثیت میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔
صدر ایوب نے کنونشن مسلم لیگ کو سیڑھی بنا کر اور ریاستی طاقت سے صدارتی انتخاب جیت لیا تھا۔ ملک صاحب کچھ عرصہ کنونشن مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔
اپنی ترقی پسند فکر اور سیاسی جبر سے بیزاری کی وجہ سے سرکاری پارٹی سے راہیں جدا کرلیں۔
1967 میں ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے دوران ان کے لکھے گئے پمفلیٹ ’ضمیر کا بحران‘ نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔
جمہورپسند نے اسے اپنی جدوجہد کے لیے تقویت کا باعث گردانا جبکہ ایوب خان کے گورنر جنرل موسی اس پر سیخ پا ہو گئے۔
ذوالفقارعلی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ نوزائیدہ پارٹی میں وہ ان چند رہنماؤں میں شامل تھے جو پارلیمانی سیاست کا تجربہ رکھتے تھے۔
1970 کے الیکشن میں لاہور سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر بھی تھے۔

ملک معراج خالد 1964 میں آزاد حیثیت میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ (فوٹو: فلکر)
ان کا پنجاب کا وزیر اعلی بننا صحیح معنوں میں ایک غیر روایتی فیصلہ تھا۔ اس منصب پر اس سے پہلے دولتانہ اور ممدوٹ جیسے جاگیردار متمکن رہ چکے ہو۔ وہاں ایک مڈل کلاس سیاسی کارکن وکیل کے وزارت اعلی کے عہدے پر فائز ہونے کو نظام کہن کے خاتمے کے آغاز کے طور پر دیکھا گیا۔
یہ روایت شکن پالیسی زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ گورنر ہاؤس میں براجمان غلام مصطفیٰ کھر اقتدار اور اختیار میں ان کی شراکت سے نالاں تھے۔
معروف دانشور اور مصنف پروفیسر فتح محمد ملک نے اردو نیوز کو اس حوالے سے بتایا کہ گورنر جو کے طاقتور جاگیردار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں لوئر مڈل کلاس سے وزیراعلی گوارا نہ تھا۔ جلد ہی دونوں میں کشمکش شروع ہوگئی۔ فتح محمد ملک کے خیال میں ذوالفقارعلی بھٹو کو سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے کھر کی زیادہ ضرورت تھی اس لیے معراج خالد صاحب کو وزارت اعلی سے سبکدوش کرکے مرکز میں وزیر زراعت بنا دیا گیا۔
شاید ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن کے کسی گوشے میں ماضی کی ناانصافی کی کسک موجود تھی۔ اسی لیے 1977 کے الیکشن کے بعد انہیں اس بدنصیب اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا جس کی زندگی محض چند مہینے تھی۔
مارشل لا کے نفاذ کے بعد سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوگیا۔ یہ معراج خالد صاحب کےدھیمے مزاج اور صلح جو شخصیت کا اثر تھا یا کوئی سیاسی مصلحت کہ ضیا الحق دور میں عملی سیاست کے تقاضوں اور ہنگاموں میں صف اول میں نظر نہ آئے۔
بے نظیر بھٹو کی ملک واپسی کے بعد ان کی ’سیاسی انکلز‘ کے ساتھ کشمکش اور اختلافات کا اثر ملک معراج خالد کی ذات پر بھی پڑا۔
اس دور میں پارٹی کی اندرونی پالیسیوں کے ناقد ’چار کا ٹولہ‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ ملک معراج خالد راؤ رشید، شیخ رشید اور شیخ رفیق پر مشتمل گروپ کے پارٹی قیادت کے ساتھ اختلافات منظر عام پر آئے۔

سابق صدر فاروق لغاری سابق وزیراعظم ملک معراج خالد سے حلف لیتے ہوئے۔ (فوٹو: فیس بک)
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے وابستہ پروفیسر طاہر نعیم ملک نے اردو نیوز کو بتایا کہ مغربی تعلیمی اداروں کی تربیت اور سیاسی نظام کے مشاہدے نے بے نظیر بھٹو کے اندر اعتدال اور عملیت پسندی پیدا کر دی تھی۔ وہ پارٹی میں پرانی سوچ کے حامل رہنماؤں کی سخت گیر حکمت عملی کے مقابلے میں نوجوان اور حقیقت پسند لیڈرز کے مشوروں کو زیادہ اہمیت دیتی تھی۔ اسی سوچ کے زیراثر انہوں نے ملک معراج خالد سمیت اولڈ گارڈز کو فیصلہ سازی سے دور رکھنا شروع کر دیا۔ ان ساری چیزوں کے باوجود معراج خالد کی نظریاتی اور سیاسی جدوجہد کا اعتراف تھا کہ انہیں 1988 کے انتخابات کے بعد دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا۔
سپیکر شب بھی پارٹی کے ساتھ بڑھتے فاصلوں اور گھٹتے اعتماد کی فضا میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی۔ اگرچہ انہوں نے کھلم کھلا پارٹی چھوڑنے اور تنقیدی رویہ اپنانے سے گریز کیا مگر عملا انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
فاروق لغاری کے ہاتھوں نظیر بھٹو کی حکومت کی رخصتی کے بعد معراج خالد کے نگران وزیراعظم بننے کے حوالے سے متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ پروفیسر طاہر نعیم کے خیال میں صدر کے غیر جمہوری اقدام کے بعد عبوری دور کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ قبول کرنا جمہوریت کی خدمت نہیں تھی۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ اپنی آپ بیتی ’Law Courts in Glass House‘ میں معراج خالد کی نگران کابینہ میں اختلافات کا ذکر کرتے ہیں۔
ان کے مطابق نگران کابینہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ایک گروپ مقررہ مدت میں الیکشن کا حامی جبکہ دوسرا الیکشن کے التواء اور احتساب کی خواہش رکھتا تھا۔
اسی کشمکش کی وجہ سے اس دور کے نگراں وزیر قانون فخرالدین جی ابراہیم مرحوم اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔
سجاد علی شاہ لکھتے ہیں کہ اس وقت ملک معراج خالد کے استعفے کی افواہیں بھی گردش کرتی رہیں۔ مگر انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا۔
اسی دور میں ’فارن اکنامک ریویو‘ نامی جریدے نے ایک رپورٹ میں کابینہ میں اختلافات اور پھوٹ کا تذکرہ کیا۔ جریدے کے مطابق کچھ وزرا نے فاروق لغاری پر نواز شریف سے ساز باز کا الزام لگایا۔ ان کے مطابق صدر لغاری نے نواز شریف کو ڈیفالٹر کے الزامات سے بچانے کے لیے قانون میں تبدیلی کروائی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 کے الیکشن کے بعد ملک معراج خالد کو سپیکر بنایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)