پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے ایک حکم نامے کے تحت صوبہ بھر میں ماتحت عدلیہ کے تمام ججز پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح تمام ججوں کو غیر سرکاری واٹس ایپ گروپوں سے بھی فوری طور پر نکلنے کا کہا گیا ہے۔
ججوں کے ضابطہ اخلاق سے متعلق یہ احکامات حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے والے جسٹس امیر بھٹی کے حکم پر رجسٹرار آفس نے جاری کیے ہیں۔
’کوڈ آف کنڈکٹ پر مکمل عمل داری‘ نامی اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’عزت ماب اتھارٹی نے اس بات کا سنجیدہ نوٹس لیا ہے کہ کس طرح کچھ عناصر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ادارے کے تاریخی قد کاٹھ اور تقدس کو پامال کرنے کا سبب بن رہے ہیں، اسی بات کے پیش نظر یہ نیا ضابطہ اخلاق جاری کیا جا رہا ہے جس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے گا۔‘
مزید پڑھیں
آٹھ نکات پر مبنی اس نئے ضابطہ اخلاق میں عدلیہ کے ججوں پر اپنے تبادلے کروانے کے لیے سفارش یا دباؤ کی صورت میں تادیبی کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے۔
اسی طرح پنجاب کی ماتحت عدلیہ کے ججز کو غیر ضروری طور پر چیف جسٹس یا لاہور ہائی کورٹ کے کسی بھی جج سے ملنے سے روک دیا گیا ہے۔ اگر کوئی جج کسی سرکاری حیثیت میں ملنا چاہے تو اس کے لیے قانونی طریقہ کار کے مطابق دفتری اوقات میں ہی مل سکے گا۔ اپنی مرضی سے ہائی کورٹ میں آکر کسی بھی جج سے ملنے کی صورت میں اسے مس کنڈکٹ تصور کیا جائے گا۔
نئے ضابطہ اخلاق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ایک جج کو اپنی نجی سماجی زندگی میں احتیاط برتنی چاہیے۔ اسی لیے اسے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام سمیت تمام سوشل میڈیا ایپس سے مکمل پرہیز کرنا ہوگا۔‘
ججوں کو اپنی ذاتی یا سرکاری گاڑیوں پر نیلی بتی لگانے سے مکمل طور پر روک دیا گیا ہے جبکہ پنجاب کا کوئی بھی جج اپنی ذاتی گاڑی پر سبز نمبر پلیٹ بھی نہیں لگا سکے گا۔

ماتحت عدلیہ کے کسی بھی جج کو غیر ضروری طور پر چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی (فوٹو: فری پک)