جمعہ 23 جولائی 2021 6:45
افغانستان کے سکیورٹی ادارے طالبان کے خلاف جنگی حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فوج کابل اور دیگر اہم شہروں کے علاوہ سرحدی راہداریوں اور انفراسٹرکچر کی حفاظت پر مامور کی جائے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سیاسی طور پر خطرناک حکت عملی سے مزید علاقے طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے تاہم حکومتی عہدیداروں کے خیال میں ملٹری کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوج کو پورے ملک میں پھیلانے کے بجائے کچھ علاقوں تک محدود کرنا چاہیے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے حالیہ اندازے کے مطابق طالبان نصف سے زیادہ مرکزی اضلاع کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جبکہ امریکی انٹیلیجنس نے اندازہ لگایا ہے کہ افغان حکومت کا تختہ چھ مہینے میں الٹ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
افغان حکومت کے ایک عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا کہ فوج کی تنظیم نو سے اہم علاقوں پر کنٹرول قائم رکھنے اور انفراسٹرکچر کا دفاع کرنے میں مدد ملے گی جن میں انڈیا کی مدد سے تعمیر کیا گیا ڈیم اور دیگر شاہراہیں شامل ہیں۔
تاہم صرف اہم مقامات کے دفاع پر فوج مرکوز کرنے سے دیگر علاقوں کے غیر محفوظ ہونے کا خدشہ ہے، وہاں کے رہائشیوں کو یہ پیغام جائے گا کہ جیسے انہیں طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
افغان عہدیدار نے سوال اٹھایا کہ ایسے حالات میں جب طالبان نے کئی اضلاع کا قبضہ حاصل کر لیا ہے، دباؤ کا شکار عوام کو یہ پیغام کیسے دیا کیا جا سکتا ہے کہ فوج صرف اہم مقامات کی حفاظت پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ حکمت عملی میں تبدیلی کی وجہ سے جن علاقوں سے افغان فوج نکلے گی وہاں کم از کم کچھ عرصے کے لیے طالبان کا تسلط قائم ہو جائے گا۔
امریکی چیئر مین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا ہے کہ افغان فوج کی نئی حکمت عملی کے تحت مرکزی اضلاع کا کنٹرول ترک کرنا پڑے گا تاکہ دارالحکومت کابل اور دیگر بڑے شہروں کو طالبان کے قبضے سے محفوظ کیا جا سکے۔
جنرل مارک ملی نے بدھ کو پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ ’طالبان کے افغانستان پر مکمل قبضے کا امکان ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور منظر نامہ بھی ترتیب پا سکتا ہے، تاہم میرے خیال میں ’اینڈ گیم‘ ابھی تک نہیں لکھی گئی۔‘

جنرل میکنزی کا کہنا تھا کہ کئی سالوں سے امریکہ کو افغان حکومت کی حکمت عملی پر تشویش تھی (فوٹو: اے ایف پی)