طوفانوں کے نام کس طرح رکھے جاتے ہیں؟

پاکستانیوں کو جب بھی طوفانوں کے نام رکھنے کا موقع ملا تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح کے نام رکھے ہوں گے؟۔

ذہن میں تو سائیکلون صائمہ اور طوفان توبہ نام آئے مگر حقیقت میں یہ نام شاعرانہ تھے جن میں گلاب، بادبان، گلنار اور پرواز جیسے نام ہیں جو باظابطہ طور پر رکھے گئے تھے۔

ایک سوال جو ہر ایک کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ ان طوفانوں کے نام کون رکھتا ہے اور اس کا طریقۂ کار کیا ہوتا ہے؟۔

دنیا بھر میں 6 علاقائی اسپیشل میٹرولوجیکل سینٹر ہیں جبکہ 5 سینٹر ایسے ہے جو دنیا بھر میں سمندری طوفانوں کے وارننگ سینٹر ہیں، جن کا کام سمندری طوفانوں سے متعلق پیشگی اطلاعات، بچاؤ کی تجاویز دینا، صورتحال کو مانیٹر کرنا اور طوفان کے نام رکھنا ہوتا ہے۔

نئی دہلی میں موجود علاقائی سینٹر 13 ممالک کو طوفان سے متعلق اطلاعات اور معلومات فراہم کرتا ہے، ان ممالک میں بنگلہ دیش، بھارت، ایران، مالدیپ، میانمار، عمان، پاکستان، قطر، سعودی عرب، سری لنکا، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات اور یمن شامل ہیں۔

جبکہ اصول یہ ہے کہ جس ملک کے قریب طوفان کی صورتحال پیدا ہوتی ہے وہ ملک طوفان کا نام رکھنے کا حقدار ہوتا ہے۔

بھارت کی ریاست گجرات سے ٹکرانے والے حالیہ سمندری طوفان تاؤ تے کا نام برما نے رکھا تھا، برمی زبان میں تاؤ تے ’’چھپکلی‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چھپکلی ہی کیوں؟، تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ جس کا ملک، نام بھی اس کی مرضی سے ہوگا۔

یہ نام آتے کہاں سے ہیں؟

تاریخی طور پر 19ویں صدی میں لوگوں نے سمندری طوفانوں کو نام دینا شروع کردیا تھا، جیسے کہ اس مخصوص ایریا یا ملک کا نام یا جب طوفان کسی جہاز سے ٹکراتا تھا تو اسی جہاز کے نام پر طوفان کا نام رکھا جاتا تھا۔ مشہور ماہر موسمیات کلیمنٹ ریگ نے خاص طور پر طوفانوں کے نام رکھنے شروع کئے تھے۔

طوفانی ناموں کا سلسلہ اچھا خاصا چل ہی رہا تھا کہ بیسوی صدی میں مغربی ماہرین موسمیات نے فیصلہ کیا کہ نام دلچسپ نہیں ہیں اور انہوں نے خواتین کے ناموں سے طوفانوں کے نام رکھنے شروع کردیئے۔

 یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی نے اپنی سابقہ محبوب کے نام پر طوفان کا نام  رکھا ہو، خیر یہ تو ہمیں نہیں پتہ مگر قطرینہ،سنڈے، ٹریسی، مناہل، عمری، ارما، نیلو فر جیسے نام سامنے آئے۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں صنفی تعصب پر مبنی ناموں پر اعتراض سامنے آنے کے بعد اس جیسے ناموں پر پابندی لگ گئی۔

نام رکھنے کا طریقۂ کار

دہلی میں موجود علاقائی سینٹر کو بحیرۂ عرب اور بنگال میں رونما ہونے والے طوفانوں کے نام رکھنے کی ذمہ داری دی گئی مگر نام رکھنے کے کچھ اصول وضع کردیئے گئے، جیسا کہ نام سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے قابل قبول اور بولنے میں آسان جبکہ مہذب اور 8 الفاظ تک محدود ہونے چاہئیں۔

عالمی میٹرولوجیل آرگنائزیشن کی ہدایات کے مطابق 2004ء میں 64 ناموں کی فہرست مرتب کی گئی تھی، ان میں 8 ممالک نے اپنے پسند کے نام درج کئے تھے یعنی سمندری طوفان کا نام ان کے آنے سے پہلے ہی رکھے گئے ہیں۔

پاکستان نے بھی اپنے مرتب کردہ ناموں کی فہرست متعلقہ سینٹر کو دیدی ہے اور جیسے کہ ہم نے آپ کو ویڈیو کی شروعات میں بتایا یہ نام ہیں تو کافی شاعرانہ مگر اچھی بات یہ ہے کہ ان ناموں میں چھپکلی جیسے نام نہیں۔

متعلقہ خبریں