وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت غریب عوام کو کمرشل بینکوں کے ذریعے بلاسود قرضے فراہم کرے گی۔
سنیچر کو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ایک سال میں 500 سے 600 ارب روپے دے، عوام کو قرضے ہول سیل فنانسنگ، کمرشل بینکوں سے دلا رہے ہیں۔‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’اخوت نے ڈیڑھ سو ارب روپے کے چھوٹے قرضے دیے ہیں جس سے ریکوری 99 فیصد تک ہوئی۔‘
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ ’کمرشل بینک جب غریب عوام کو قرضے دیں گے تو ہم انہیں ضمانت دیں گے کہ یہ پیسے واپس آئیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ثانیہ نشتر ہر خاندان کی آمدن کے حوالے سے ایک سروے کر رہی ہیں، اس کے مطابق یہ قرضے دیے جائیں گے، غریب کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہے وہ ملک کے کسی بھی کونے میں ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کاشت کار کو ڈیڑھ لاکھ روپے ہر فصل کا دیں گے، ٹریکٹر لیز کرنے کے دو لاکھ روپے دیں گے اور شہری علاقوں میں پانچ لاکھ روپے تک کا بلا سود قرضہ دیں گے تاکہ وہ کاروبار کر سکیں۔‘
’شہری علاقوں میں اپنی چھت کے لیے 20 لاکھ روپے تک قرضہ دیں گے اور دیہات میں پانچ لاکھ روپے تک قرض دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے علاوہ جب غریب کے گھر کوئی بیمار ہوجاتا ہے تو انہیں علاج کے لیے پیسوں کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں اپنی چیزیں بیچنا پڑ جاتی ہیں تاہم صحت کارڈ سے ان کے مسائل کا حل ہوگا۔‘
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ’سکل ڈویلپمنٹ پر کام کریں تاکہ غریبوں کو روزگار مل سکے۔‘
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موبائل کالز، انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کی وزیراعظم اور کابینہ نے مخالفت کی جس کے بعد ان سب پر ٹیکس عائد نہیں ہوگا۔‘

شوکت ترین نے کہا کہ ’ہم نے کل گروتھ بجٹ پیش کیا ہے اور ہمارا چیلنج گروتھ کو مستحکم کرنا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’حکومت نے معاشی نمو کو سب تک منتقل کیا ہے اور اس بجٹ میں پی ایس ڈی پی، صنعتوں زراعت وغیرہ سب کو مراعات دی ہیں تاہم اب ہمارا چیلنج مستحکم نمو لانا ہے۔‘
شوکت ترین نے کہا کہ ’ہم نے کل گروتھ بجٹ پیش کیا ہے اور ہمارا چیلنج گروتھ کو مستحکم کرنا ہے۔ برآمدات بڑھا کر ہمیں ڈالر کمانے ہیں، آئندہ مالی سال 500 ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کریں گے جب کہ بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے نان فائلر تک پہنچ جائیں گے۔‘
شوکت ترین نے کہا ہے کہ ’آٹھ سے 10 سال میں ترقی کی شرح 20 فیصدتک لے جانے کا ہدف ہے، درآمدات اور برآمدات کے تناسب کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ بڑے ریٹیلرز کی 1500 ارب کی سیل ہے، تمام بڑے سٹورز پر سیلز ٹیکس لگانا ہے۔ صارفین پکی پرچی لیں گے تو انعام دیں گے۔ ترکی اور باقی ملکوں میں ایسی کامیاب سکیمیں چلائی گئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان فوڈ ڈیفیسٹ ملک بن چکا ہے، ہم جو چیزیں ایکسپورٹ کرتے تھے اب وہ امپورٹ کررہے ہیں، ہم دالیں، گندم اور چینی بھی امپورٹ کررہے ہیں، ہم نے اپنی فصلوں پر توجہ نہیں دی گئی اب اس پر توجہ دیں گے۔‘
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ‘ملک کے قابل اکانومسٹ کو اکٹھا کرکے میں نے ان سے یہ سوال کیا تھا کہ ہمارے ملک کی مستحکم نمو کیوں نہیں ہوتی تو انہوں نے کہا تھا کہ جب آپ کی معیشت میں طلب بڑھتی ہے تو درآمد بڑھتی ہے اور برآمد اتنی نہیں بڑھتی جس سے ڈالر کم ہوتے ہیں اور وہ آپ چھاپ نہیں سکتے تو آپ کی مالیاتی صورتحال کمزور ہوجاتی ہے اور آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی وجہ سے ہم ہر وقت آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، ہمیں ڈالر کمانے ہیں جو ہم برآمدات سے ہی کما سکتے ہیں۔‘

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہمارے پاس ریونیو نہیں، ریونیو ایف بی آر اور صوبے اکٹھا کرتے ہیں۔‘ (فوٹو اے ایف پی)