پاکستان کی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے آن لائن غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کے حوالے سے قواعد کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے جس میں مزید بہتری کے لیے سٹیک ہولڈرز سے تجاویز بھی مانگ لی گئی ہیں۔
ابتدائی مسودے کے مطابق کسی بھی غیر قانونی مواد کے بارے میں شکایت درج کرانے کا اختیار عام فرد، وزارتوں اور ان کے متعلقہ ادارے، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جینس ایجنسیوں یا حکومت کی ملکیت کمپنی کے پاس ہو گا۔
اتھارٹی کی جانب سے احکامات کے باوجود غیر قانونی مواد بلاک یا ہٹانے سے انکار کرنے والی ویب سائٹس یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مخصوص عرصے یا مکمل طور پر بلاک کرنے کے احکامات بھی دیے جا سکیں گے۔
مزید پڑھیں
اردو نیوز کو دستیاب قواعد کا 13 صفحات پر مشتمل مسودہ چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں غیر قانونی مواد کی تشریح، شکایت درج کرانے کا طریقہ کار، شکایت کی سماعت، اپیل اور فیصلے پر عمل در آمد سمیت تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔
وزارت نے سٹیک ہولڈرز سے اس ابتدائی مسودے پر تجاویز 28 جون تک طلب کی ہیں جس کے بعد اسے مشاورت کے ساتھ حتمی شکل دیتے ہوئے کابینہ سے منظوری کے بعد نافذ کر دیا جائے گا۔
قواعد کے مطابق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری یا تنظیم آزادی اظہار کا اپنا حق استعمال کر سکتی ہیں اور آن لائن ایسے کسی بھی مواد کو روکا یا ہٹایا نہیں جائے گا۔ تاہم اسلام کی عظمت، پاکستان کی سلامتی، امن عامہ، اخلاقیات، سالمیت اور دفاع پاکستان کے خلاف مواد کو ہٹایا یا بلاک کیا جائے۔
اس مقصد کے لیے کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے کمیونٹی سٹینڈرڈز یا گائیڈ لائنز کو رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا اور ان سٹینڈرز یا گائیڈ لائنز کی ان قواعد کے مقابل کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔
کسی بھی غیر قانونی مواد کے خلاف شکایت مجوذہ فارم یا تحریری طور پر درج کرائی جا سکے گی جبکہ اتھارٹی از خود بھی متنازعہ یا غیر قانونی مواد کا نوٹس لے سکے گی۔
مجوذہ فارم میں جن کیٹگریز کے تحت شکایت درج کرانے کا آپشن دیا گیا ہے ان میں اسلام مخالف، پاکستان کی دفاع و سالمیت، امن عامہ، اخلاقی حدود، توہین عدلیہ، پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کی خلاف ورزی جبکہ چائلڈ پورنوگرافی اور آن لائن ہراسمنٹ جیسے جرائم بھی شامل ہیں۔

ویب سائٹس کو مواد ہٹانے کے لیے 48 گھنٹے کا وقت دیا جائے گا (فوٹو: پکسابے)