پاکستان میں برائلر مرغی کا گوشت آج کل مہنگی ترین سطح پر فروخت ہو رہا ہے۔ 18 مئی کو جب یہ خبر لکھی جا رہی ہے تو اس وقت مارکیٹ میں چکن کا ریٹ 422 روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔
بلوچستان اور دودراز علاقوں میں یہ ریٹ 500 روپے فی کلو کی حد بھی کراس کر چکا ہے۔ ایسے میں حکومتی وزرا اس مہنگائی کی وجہ مافیا کو قرار دے رہے ہیں۔
پنجاب کی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے ’جس طرح چینی اور آٹا مافیا کے خلاف حکومت نے کارروائی کی ہے بالکل اسی طرح اب پولٹری مافیا کے خلاف بھی کارروائی کا وقت آگیا ہے اور اس صنعت کو بھی اب ریگولیٹ کیا جائے گا۔‘
مزید پڑھیں
تو کیا چکن مہنگا ہونے کی وجہ واقعی کوئی مافیا ہے یا یہ صنعت کئی وجوہات کی بنا پر گرداب میں ہے۔ اردو نیوز نے اسی بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی ہے۔
محمد وسیم کا تعلق پنجاب کے قصبہ شرق پور سے ہے اور وہ پچھلے 15 سال سے پولٹری فارمنگ سے منسلک ہیں۔ اس سال ان کا پولٹری کا کاروبار نہایت متاثر ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا ’میں نے اپریل کے مہینے میں 50 ہزار چوزہ ڈالا۔ اور گیارویں دن ایک بیماری کا حملہ ہوا جس کو ایک ہفتے میں کسی حد تک کنڑرول کر لیا۔ لیکن اس کے بعد پھر یکے بعد دیگرے دو حملے ہوئے۔ میرا کنڑولڈ شیڈ ہے اور یہ دو منزلہ ہے۔ اب کی بار گراؤنڈ فلور کا فلاک بھی اس بیماری کی زد میں آگیا۔ جس میں تباہ کن حد تک اموات واقع ہوئیں۔ آپ میری بات پر یقین نہیں کریں گے۔ 31ویں دن صرف چھ ہزار برائلر مرغے بچے جو کہ چھ لاکھ روپے میں فروخت ہوئے۔ میں نے 40 لاکھ کا چوزہ ڈالا تھا اور 35 لاکھ کی فیڈ کھلائی اس طرح بیماری کی روک تھام کے لیے 20 لاکھ خرچ کیے۔ 95 لاکھ روپے کے عوض صرف چھ لاکھ روپے واپس آئے ہیں۔ اور اب میرے میں سکت نہیں فوری طور پر دوبارہ کام شروع کرنے کی۔‘
برائلر گوشت کا کام کرنے والے کسان محمد وسیم ان دنوں شدید ذہنی کرب سے دوچار ہیں۔ ایسی کہانی صرف انہی کی نہیں اس سال پولٹری کی صنعت غیرمتوقع طورپر بیماری کی زد میں آئی ہے جس کی وجہ سے چکن کی پیدوار شدید دباؤ میں ہے۔

پنجاب پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے مطابق کہ بیماری کی وجہ سے رسد متاثر ہوچکی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پنجاب پولٹری فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک خرم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا سینکڑوں کسان اس وقت شدید دباؤ میں ہیں کیونکہ بیماری نے بڑے پیمانے پر پرندوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایسی سینکڑوں کہانیاں ہیں کہ کسانوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
’اگر آپ نے صحیح معنوں میں اس وقت چکن کی کم پیداوار کا تخمینہ لگانا ہے تو وہ نئے چوزے یا سیڈ کی فروخت سے لگا سکتے ہیں۔ ہر مہینے پاکستان میں اوسطاً ایک کروڑ 40 لاکھ چوزہ فروخت ہوتا ہے۔ چونکہ برائلر 31 سے 40 دنوں میں تیار ہوجاتا ہے اس لیے اس کا حساب مہینے سے مہینے ہی چلتا ہے۔ اس وقت چوزے کی فروخت 98 لاکھ پر آ چکی ہے۔ یعنی لوگ اس کاروبار سے باہر ہو رہے ہیں۔ اس لیے بھی پیدوار میں شدید کمی ہوئی ہے۔ اور طلب رسد کا نظام متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔ اور اس کے جلد ٹھیک ہونے کے کوئی چانسز نہیں۔‘
قیمتوں میں اضافے کے عوامل
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں 15 ہزار مرغی فارم ہیں جو غذائی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سال غیر معمولی بیماری کے حملے ہی چکن کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے؟
پنجاب پولٹری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر طارق جاوید سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ایک وجہ نہیں ہے۔ چار ایسے عوامل ہیں جو اس وقت پولٹری کی قیمتوں کا تعین کر رہے ہیں۔
’پہلا فیکٹر تو طلب رسد ہے۔ یعنی پیداوار کم ہے تو لامحالہ اوپن مارکیٹ میں بیٹھے ٹریڈر ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے زیادہ پیسے خرچ کر کے چکن اٹھا رہے ہیں۔ بیماری کی وجہ سے رسد متاثر ہوچکی ہے۔ رانی کھیت کی نئی سٹرین اس بار آئی ہے جس کی وجہ سے اوسطاً شرح اموات 50 فیصد تک چلی گئی ہے۔ تیس ہزار پرندے ڈالنے والا کسان اس میں سے 15 ہزار بیچ پا رہا ہے باقی مر رہے ہیں۔ دوسرا فیکٹر کورونا کی پہلی لہر کے دوران چکن 70 روپے کلو تک آ گیا جس سے بڑے پیمانے پر کسان اس کاروبار سے ہی باہر ہو گئے۔ آخری اور تیسرا فیکٹر ہے برائلر کا بیج جو امریکہ، ہالینڈ اور فرانس سے درآمد کیا جاتا ہے فلائٹس متاثر ہونے سے اس کی امپورٹ بھی بہت کم ہوئی ہے۔‘

کورونا کی پہلی لہر کے دوران چکن 70 روپے کلو تک آ گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی