چترال:شادیوں کےنام پردھوکہ دہی سے متعلق قرارداد منظور

فوٹو: سماء ڈیجیٹل

خیبرپختونخوا اسمبلی میں غیرمقامی افراد کی چترالی لڑکیوں کے ساتھ شادیوں سے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔

قرارداد چترال سے تعلق رکھنے والے وزیراعلٰیٰ خیبرپختونخوا کے معاؤن خصوصی برائے اقلیتی امور وزیرزادہ نے اسمبلی میں پیش کی تھی۔

قرارداد میں بتایا گیا ہے کہ چترال میں شادیوں کے خواہشمند غیر مقامی افراد اپنی مقامی پولیس سے ذاتی معلومات کے کوائف اور اپنے علاقے کے معززین کی ذمہ داری کی اسناد چترال پولیس کو فراہم کریں گے۔

چترال پولیس فراہم کردہ دستاویزارت کی تصدیق متعلقہ پولیس حکام سے کریں گے جس کے بعد متلعقہ حکام اور عمائدین کی جانب سے تصدیق ہوجانے کی صورت میں شادی کی اجازت دی جائے گی۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیرزادہ نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ اس قرارداد کے نتیجے میں دھوکہ دہی اور کسی ناجائز مقاصد کی حصول کے لیے کی جانی والی شادیوں کی روک تھام میں مدد ملی گی۔

وزیر زادہ کا کہنا ہے کہ اگر شادی نیک نیتی سے کی جائے تو یہ ایک مہذب ترین رشتہ ہے لیکن چترال میں باہر سے آنے والے افراد یہاں کے لوگوں کی غربت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔  ان کا مزید کہنا تھا کہ ان میں سے اکثر رشتے شادی کی نیت سے نہیں ہوتے اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ چترال ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں لوگوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی بیٹیاں ترقی یافتہ علاقوں میں بیاہ کر آرام دہ زندگی گزارسکیں تاہم کسی جانچ پڑتال کے بغیر ہونے والی شادیوں سے ان کی بیٹیاں آسائشوں کے بجائے مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرارداد میں والدین کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ متعلقہ حکام اور علاقہ عمائدین کی تصدیق کے بغیر شادی سے گریز کریں۔

وزیر زادہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد تک شادیاں نیک نیتی کی بنیاد پر ہو رہی ہیں لیکن کچھ شادیاں لالچ کی بنیاد پر بھی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے سسرال میں خواتین کو وہ حقوق نہیں ملتے جو ان کا قانونی حق ہیں جبکہ بہت سے ایسے واقعات بھی ہورہے ہیں کہ شادی کے تھوڑے عرصے بعد انہیں طلاق دے دی جاتی ہے۔

معاؤن خصوصی کے مطابق کے غیر مقامی افراد میں عمر رسیدہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو چترالی خواتین سے شادیاں کرتے ہیں اور شادی کے بعد ان کے گھریلو تنازعات کھڑے ہوجاتے ہیں مگر اب یہ سلسلہ رکے گا اور پولیس اہلکار متعلقہ افراد کی تحقیقات کریں گے۔

کیلاش کمیونٹی کی روایات اور ثقافت کو تحفظ دینے کے لیے کیلاش میرج ایکٹ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ بل تیار ہوچکا ہے جسے عید کے بعد اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

کیلاش میریج ایکٹ سے متعلق مجوزہ بل

چترال میں آباد کیلاش قبیلہ اپنی مضبوط روایات اور ثقافت کے بل بوتے پر زندگی گزار رہا ہے تاہم ان کی شادیاں کسی سرکاری محکمے میں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں اس لیے ان کی شادیوں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی اقلیتی امور وزیر زادہ کا کہنا ہے کہ کیلاش میریج ایکٹ کے لیے قانونی مسودے کی تیاری میں کیلاش قبیلے کے معززین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

وزیردادہ کا کہنا ہے کہ کیلاش قبیلے میں شادیوں، جہیز، طلاق اور وراثت سے متعلق قانوی سازی نہیں تھی صرف مقامی رسم ورواج کے تحت شادیاں کی جاتی ہیں جس میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں ہوتی ہیں تاہم صوبائی حکومت نے کیلاش کی ثقافت اور تہواروں کو مد نظر رکھتے ہوئے مجوزہ کیلاش میرج ایکٹ تیار کیا ہے جس سے کیلاش کمیونٹی کی شادیوں سے متعلق مسائل کی روک تھام میں مدد ملے گی۔

متعلقہ خبریں