امریکہ میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اینتھونی فاوچی نے چین پر زور ڈالا ہے کہ وہ ان چھ مزدوروں کی تفصیلات جاری کرے جو 2012 میں یونان صوبے میں ایک کان میں کام کرنے کے بعد بیماری سے متاثر ہوگئے تھے۔
یہ واقعہ کووڈ-19 کی جڑوں کا سراغ لگانے میں اہم مانا جارہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 30 سے 63 سال کی عمر کے یہ کان کن اپریل 2012 میں تانبے کی ایک جگہ سے چمگادڑ کی گندگی صاف کر رہے تھے۔
مزید پڑھیں
کچھ ہفتوں بعد ان میں کھانسی، بخار، سر اور سینے میں درد جیسی علامتیں ظاہر ہوئیں جس کی وجہ سے متاثرہ کان کنوں کو کنمنگ صوبے کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا۔
بعدازاں ان میں سے تین کا انتقال ہو گیا تھا۔
یہ کان جنوب مغربی چین کے علاقے موجیانگ میں ووہان سے 1500 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، جہاں کووڈ-19 پہلی بار پایا گیا تھا۔
وہ چھ کان کن کون تھے؟
ان چھ کان کنوں کی مکمل تفصیلات اب تک جاری نہیں کی گئی ہیں، لیکن ان کے مکمل نام، عمریں اور طبی ریکارڈز 2013 میں کنمنگ میڈیکل یونیورسٹی کے ایک طالب علم لی ژو کی تھیسس میں تحریر کردہ تھے۔
اس تھیسس میں بتایا گیا ہے کہ ان کان کنوں میں جو علامات تھیں اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ انہیں ‘سارس جیسا’ کورونا وائرس تھا جو کہ چمگاڈر سے لگا تھا۔
سال 2012 کے آخر میں کان میں واپس جانے والے سائنسدانوں نے ایک بیماری کے نمونے لیے تھے جسے ‘موجیانگ وائرس’ کہا گیا اور یہ چمگادڑ میں پایا جاتا ہے۔ اس کا سارس-کووڈ-2 سے کوئی تعلق نہیں۔

کان میں کام کرنے والے افراد کو چمگادڑ کی گندگی صاف کرنے کے بعد کھانسی اور بخار ہوا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی