منگل 15 جون 2021 15:24
فیس بک اور سیلیکون ویلی سے متعلق بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو یورپی یونین میں مزید پابندیوں اور چھان بین کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کنزیومر لابنگ گروپ بی ای یو سی نے منگل کو ہونے والے اس فیصلے کو خوش آئند کہا ہے جس میں یورپی یونین کے کورٹ آف جسٹس نے ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کے بارے میں رکن ملکوں کی قومی ایجنسیوں کے اختیار کی حمایت کی ہے۔
گوگل، ٹوئٹر اور ایپل کے ساتھ ساتھ فیس بک بھی ان ٹیکنالوجی کمپنیوں میں شامل ہے جو یورپی یونین کے لیے آئرلینڈ میں اپنے دفاتر رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں
فیس بک یہاں دفاتر اور جی ڈی پی آر کے نام سے معروف پرائیویسی قوانین کی وجہ سے آئرلینڈ کے ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیٹر کے زیرنگرانی آتی ہے۔ ان قوانین کے تحت کسی خلاف ورزی کی صورت میں کمپنی کی کل آمدن کا چار فیصد تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین کی عدالت انصاف اس وقت معاملے کا حصہ بنی جب بیلجیئم کی ایک عدالت نے مقامی قوانین کے تناظر میں فیس بک سے متعلق رہنمائی طلب کی تھی۔
بیلجیئم کے ڈیٹا واچ ڈاگ کی کوشش تھی کہ فیس بک کو کوکیز کے ذریعے مقامی شہریوں کا ڈیٹا ٹریک کرنے سے روکا جائے۔ فیس بک کے سوشل پلگ انز میں شامل یہ کوکیز اکاؤنٹ ہو یا نہ ہو ہر دو صورتوں میں ڈیٹا ٹریک کرتے ہیں۔
بی ای یو سی کی ڈائریکٹر جنرل مونیک گوئنز کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیاں آئرلینڈ میں ہیں تاہم یورپی یونین میں 50 کروڑ صارفین کا تحفظ صرف آئرش اداروں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے۔‘
یورپی یونین کے 27 رکن ملکوں کے ڈیٹا پروٹیکشن سے متعلق قومی اداروں کو اپنے آئرش ہم منصبوں سے تاخیر کا شکوہ رہتا ہے۔ تاہم آئرلینڈ نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاقتور اور وسائل رکھنے والے ٹیکنالوجی اداروں سے معاملہ کرنا زیادہ دشوار ہوتا ہے۔
اس وقت بھی آئرلینڈ میں فیس بک کی ملکیتی انسٹاگرام اور واٹس ایپ سمیت، ٹوئٹر، ایپل، ویریزون میڈیا، مائکروسافٹ کی ملکیتی لنکڈان اور امریکی ڈیجیٹل ایڈورٹائزر کوائنٹ کاسٹ سے متعلق مقدمات موجود ہیں۔
یورپی یونین کے عدالت انصاف کا کہنا ہے کہ ’مخصوص حالات میں کسی بھی رکن ملک کا قومی ادارہ سب سے بڑی اتھارٹی نہ ہونے کے باوجود بھی جی ڈی پی آر قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی کر سکتا ہے۔‘

حالیہ فیصلے میں رکن ملکوں کے قومی اداروں کے اختیار کی حمایت کی گئی ہے (فوٹو: روئٹرز)